میٹرک میں تھا تو دلی خواہش تھی کہ اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی کرکے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ سے میکنیکل انجنیئرنگ میں بی ای کی ڈگری حاصل کر لو۔ اسلامیہ کالج پشاور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد جی آئی کے، پی آئی ای اے ایس اور یو ای ٹی پشاور کا داخلہ ٹیسٹ دیا تو اللہ نے تینوں میں کامیابی دلائی۔ گو کہ میرے پاس تینوں آپشن تھے لیکن میں نے آنکھیں بند کرکے جی آئی کے کا انتخاب کرلیا گو کہ اس کی فیس لاکھوں میں تھی اور ابھی سکالرشپ ملی بھی نہیں تھی۔میرے والد صاحب ان دنوں گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور ہردو مہینے بعد ہم ان کی ڈائلاسز کرواتے تھے ۔

جی آیئ کے میں کے پی کے سکالرشپ کیلئے جس دن انٹرویوز ہورہے تھے اس دن میں اپنے والد صاحب کے تمام میڈیکل سرٹیفکیٹس ساتھ لے گیا تھا ۔ انٹرویو بڑے اچھے ماحول میں ہوا اور پینل کو بھی اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ میں واقعی سکالرشپ کا حقدار ہو۔ تین دن بعد میں نے جب ایڈمن میں کال کی تو ایڈمن آفیسر نے مجھے بتایا کہ آپ کو سکالرشپ نہیں ملی۔ یقین کریں وہ لمحہ اتنا تلخ تھا کہ میں مایوسی کے عالم میں تقریبا زمین پر گر گیا تھا ۔

اگلے دن میں جی آئی کے چلا گیا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کی سلیکشن تو ہو گئی ہے لیکن ہم آپ کو سکالرشپ نہیں دے سکتے کیونکہ آپ نے جی آئی کے کے ہاسٹل میں رات گزاری ہے ۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سکالرشپ انٹرویوز سے ایک دن پہلے میں اپنے دوست کے ہاں ہاسٹل میں ٹھہرا تھا کیونکہ میرا گھر جی آئی کے سے بہت دور تھا اور میں انٹرویو کے لئے وقت پر نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات پر یہ لوگ مجھے سکالرشپ نہیں دے رہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا ک سوپرسٹ جا کے وہاں اپنا کمپلینٹ درج کروادو۔ وہاں جا کر میں ایکس ریکٹر شوکت حمید صاحب سے ملا اور انہیں ساری کہانی سنائی ۔انھوں نے اسی وقت ریکٹر کو کال کی اور میرے بارے میں بتایا ۔ریکٹر نے مجھے جی آئی کے بلا لیا اور میں اسی دن ان سے ملنے اسلام آباد سے روانہ ہوا، یہ سوچتے ہوئے کہ ریکٹر صاحب مجھے سکالرشپ دلائینگے ۔ تاہم جب ان سے ملا تو انھوں نے یہ کہہ کر میرے خوابوں کو توڑ دیا کہ اب تو فائنل لسٹ بھیجی جا چکی ہے اور میں اب اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں ان کے آفس سے نکل کر جی آئی کے مین گیٹ سے باہر آیا اور ایک حسرت بھری نگاہ سے آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے اسے آخری بار دیکھا۔

اگلے دن جب گھر پہنچا اور گھر والوں کو سب کچھ بتانے لگا تو ایک بار پھر بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس بار یہ آنسوؤں اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری دن جینے والے بیمار باپ، بے بس ماں اور بہن بھائیوں کے آنسوؤں بھی شامل تھے۔ باپ آخر باپ ہوتا ہے، انھوں نے مجھے دلاسہ دیا کہ اللہ سب کچھ بہتر کرےگا۔ چونکہ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا جہاں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی اور اوپر سے گھر کا واحد کفیل میرے والد صاحب بھی بیمار تھے، اسلیئے میں نے جی آئی کے جانے کا خواب نہ چاہتے ہوئے بھی دل سے نکال دیا ۔ لیکن میری ماں جو ہمت وعزم کی ایک عظیم پیکر ہیں، نے مجھے بتایا کہ تم بس اللہ پر بھروسہ رکھو باقی اللہ کچھ نہ کچھ راستہ ضرور نکالے گا۔

انہی دنوں میرے بہنوئی کے پاس کچھ پیسے تھے جو انھوں نے اپنے لئے جمع کیے تھے، ان سے قرض لیا اور آدھی فیس پہلی قسط میں جمع کرکے میکنکل انجنیئرنگ میں داخلہ لے لیا۔ گو کہ میں نے داخلہ لے لیا تھا لیکن اتنی زیادہ فیس کے بارے میں ہر وقت پریشان رہتا تھا اور اوپر سے بیمار باپ کے غم نے الگ سے میری زندگی اجیرن بنا رکھی تھی ۔ جی آئی کے میں ۱۵ دن گزارنے کے بعد والد صاحب کو انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال داخل کروایا ۔اس دوران عید کی چٹھیاں ہوگئیں اور میں سیدھا ہسپتال پہنچا ۔ عید بھی ہسپتال میں گزاری اور عید کے تیسرے دن والد صاحب اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔

والد صاحب کے فوت ہونے کے بعد میں نے تعلیم ترک کر نے کا ارادہ کیا تھا لیکن ماں کے بےحد اصرار پر دوبارہ یونیورسٹی آیا اور پڑھائی شروع کی۔ یہ میری زندگی کے انتہائی تلخ دن تھے ۔ فرسٹ اور سیکنڈ سمیسٹر کے دوران میں نے مختلف سکالرشپس کے لئے اپلائی کیا کیوں کہ میرے پاس اگلے سال فیس کے لئے پیسے نہیں تھے ۔

سیکنڈ ائیر سے ایک مہینے پہلے مجھے جی آئی کے ایلومنائی کی طرف سے سکالرشپ انٹرویو کے لئے کال آئی اور میں اگلے ہی دن انٹرویو دینے اسلام آباد پہنچا ۔انٹرویو پینل میں دو سینئر جیکئن کامران کنڈی صاحب اور عاصم غفار بھائی تھے جنہوں نے مجھے کہا

“We are like a family and consider us as your brothers. Tell us everything very clearly, the rest we will take care of”.

اس بات نے میرے دل میں ان کے لئے ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ میں آج بھی ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔

سیکنڈ ائیر کے پہلے مہینے میں کامران کنڈی صاحب جی آئی کے تشریف لائے اور مجھے ایلومنائی سکالرشپ کے بارے میں خوشخبری سنائی۔ اس سکالرشپ میں ٹیوشن فیس کے علاوہ دس ہزار روپے ماہانہ بھی شامل تھے ۔ میں نے جب یہ خوشخبری اپنی ماں کو سنائی تو وہ انتہائی خوش ہوگئیں اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

ایلومنائی سکالرشپ سے جہاں ایک طرف مجھے مالی معاونت ملی وہاں میرے سپانسر نے ہر موقع پر میری رہنمائی فرمائیں خواہ وہ انٹرن شپ ہو یا جاب کی تلاش۔ میں یہاں پر دل کی اتاہ گہرائیوں سے پوری ایلومنائی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہو۔ یہ آپ لوگوں کی مالی مدد کا نتیجہ ہے کہ میرا خواب ٹوٹنے سے بچ گیا اور میں جی آئی کے کا گریجویٹ بنا ۔

آخر میں میں خصوصی طور پر اپنے سپانسر کو مخاطب کرکے کہتا ہوں

“For me you are the angel of goodness who came to my rescue in the times of distress. Your generosity and affection has taken me into a position where I can call myself a proud son and proud brother. You are the most respectable person in my life after my mother. I am really short of words to thank you for your helping hand and cooperation”

Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *